وفا کی بے وفا سے ۔۔۔

 ذیشان،سیتامڑھی

آنکھ  پھٹی کی پھٹی رہ گئی، جب میں عشق کی گلیوں میں ایسا ٹھوکر کھایا کہ مجھے کوئی اٹھانے والا نہی تھا ۔ جتنا جلدی  عشق ہوا اتنا ہی جلدی دھوکا بھی منتظر فردا تھا۔  جس سے میرے دل کو بڑا جھٹکا لگا ۔جب سے مین محبت کے آغوش اٹھا پھینکا گیا ہوں تب سے میرا غم خوار کوئي نہیں ہے ، کوئي دوست ملتا ہے تو بس ایسا لگتا ہے کہ میں نے محبت کرکے کوئی جرم کیا ہو۔ سارے اشراف زادے اور بس میں اکیلا خطا کار ۔۔۔؟

سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن

کیا میرے سوا  اس شہر میں معصوم ہیں سارے

 آخر کار میں گلیوں میں پاگلوں  کی طرح پھرتا رہا ۔ سب نے مجھے ٹھکرا دیا تھا۔  میری آنکھوں کے اشکوں  کو روکنے والا کو ئی نہیں تھا ۔ بچے مجھے کم ظرف سمجھتے تھے،  جس سے میرا دل  پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔ 

اسی اثنا ایک خوب رو جوان جوخود بھی اس مرض لا ینفک یعنی  عشق میں مبتلا تھا،مجھے تسلی دینے لگا  اور میرے  رونے کی وجہ پوچھی۔

میں نے کہا : میں بچپن  ہی  میں اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا تھا  ۔ گلیوں میں  دربدر بھٹکتا رہتا  اور جو مجھے کھانے کو ملتا وہ کھا لیتا ، اور کبھی بھوکے پیٹ ہی زمین کو اپنا بستر اور آسمان کو چادر کئے لیٹ جاتا۔ 

تبھی ایک دن مجھے سڑک کے کنارے ایک معصوم سی ، بھولی بھالی لڑکی نظر آئی مگر  میں اس کی معصومیت کو نہیں پہچان سکا ۔ نتیجتا  میرا    دل اس کی طرف کھنچتا چلا گیا ، اور بے خبری میں محبت کی لہر مجھ میں دوڑ گئی۔  پھر ایک دن میں اسے گھمانے لےگیا ، ویسے تو خود میں نے بھی شہر نہیںدیکھا تھا، مگر کیا کرتے اس کی نظر میں مجھ کو ہیرو جو بننا تھا ۔ ہم ٹہل ہی رہے تھے کہ وہ مجھ سے کو گڑیوں کے دکان میں سجی ایک گڑیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، خرید لانے کی فرمائش کرنے لگی۔ مگر میرے پاس اتنا پیسہ تو تھا نہیں کہ میں وہ خرید سکوں۔ اور مشکل تو یہ تھی کہ  میں اس سے یہ کیسے کہوں کہ میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہیں۔

پھر میں نے سوچا کہ دلازاری  سے تو اچھا ہےکہ حقیقت بتا دوں ، سو  میں نے تھوڑی سی جھجک کے ساتھ کہا :  کل  خرید  کر دونگا۔

  اس نے کہا :ٹھیک ہے ۔

 دوسرادن آیا پھر بھی میرے پاس پیسےجمع  نہیں ہو پائے  تھے ۔ میں اس کو آج کل کہہ کر اور انتظار کروا کر  پریشان کرنا  نہیں چاہتاتھا ،  اس  لئے  صاف صاف کہہ دیا  ، کہ میں  اتنی مہنگی گڑیانہیں خرید سکتا ، مجھے معاف کر دو۔

میری اس بات پر اس کوبہت  غصہ آیا اور وہ وہاں  سے  چلی گئی ۔ دوسرے  دن میں نے دیکھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ ہے ۔

میں نے اس سے کہا کہ  چلو ، آج میں تمہیں  گڑیا  خرید کر دیتا ہوں  ۔

اس نے اکڑ کر تیور دکھاتے ہوئےکہا :تم میرے لائق نہیں ہو،  ایک گاڑی خرید نہیں سکتے   اور آئے سپنہ ہزار سجائے ۔ تمہاری اتنی  اوقات نہیں  ہے کہ تم   میرے ساتھ رہ سکو۔ یہ سنکر میرے دل کو ایسا جھٹکا لگا کہ میں بے حس ہوگيا۔ میں اسی بات پر اپنے آپ کو کوستا ، بھٹکتا، روتا پھر رہا تھا کہ تم ملے ۔ اس پر  وہ جوان نے کہا : کیا تم مجھے اپنا بھائی بناؤگے ؟

میں نے کہا : تم بھائی  نہیں بلکہ میرا باپ بھی بن جاؤ۔ تم سے مل کر نہ جا نے مجھے اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے ؟ ۔ پھر میں نے اپنے  آپ کو سنبھالا ۔

 اس نے کہا : چلومیرے ساتھ میرے گھر پر ، اور میں اس کے ساتھ چل دیا۔   ہم دونوں بہت گہرے دوست بن کر رہنے لگے ۔  اچھی تعلیم حاصل کی ، بڑی بڑی ڈگریاں لیں اور ایک وقت وہ آیا کہ نوکری کے سلسلہ میں ہم دونوں کو الگ ہونا پڑا، اور وقت نے ایسی کروٹ لی ، مجبوریوں نے ایسے گھیرا کہ کئی سال ہوگئے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو خط سے آگے نہیں مل سکے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی