آزادئ ہند اور اردو داں

شیخ سیف اللہ راہی، دار الہدی پنگنور

جنگ آزادی کے ناقابل فراموش کرداروں میں میدان صحافت کا رول بھی قابل رشک ہے۔ جہاں شعراء کرام اپنے اشعار سے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے وہیں مقررین نے اپنی شعلہ بیانی سے سوتے ہوئے ، ماند پڑگئے جذبوں میں نئی روح پھونکی۔ جہاں قائدین نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے لشکر کی کمانڈ سنبھالی تو وہیں جنگجو میدان میں اتر کر صفحہ ہند کا کایا پلٹنے کی انتھک کوشش میں شہادت کا عظیم سہرا اپنے سروں پر باندھنے لگے۔ انہی ایام تلخ کے دوران اردو صحافت نے بھی آزادی کی لہر میں جوش اور روح پھونکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ملک کے درد بھرے حالات کی دردناک تصویر کبھی بشکل مصوری تو کبھی بشکل تحریر کھینچ کر لوگوں کو یہ جانکاری فراہم کیا کہ آخر کار ہم کیوں آزادی کے شوقین اور متلاشی ہیں ۔ انہی خدمات کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں:  

اردو کا پہلا اخبار:" جام جہاں نما "جو کہ کلکتہ سے 1822 کو شروع ہوا۔ 1837 کو دہلی سے "دہلی اردو اخبار" جو پہلے مصالحانہ انداز میں بات کرتا تھا مگر 1857 کے بعد باغیانہ انداز اخیار کیا۔  

انہی ایام "صادق الاخبار" از جمیل الدین ہجر اور "سید الاخبار" سید محمد خان برادر عزیز سر سید احمد خان۔  غدر کےدوران بہادرشاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدر بخت   کی قیادت میں منظر شہود پر آئے اخبار "پیام آزادی "نے تو آگ لگادی ۔ 

اسی طرح 1903 کو دہلی سے جاری ہونےوالے "اردوئے معلی" از حسرت موہانی اس لڑی کی اہم کڑی ہے۔  1912 کو کلکتہ سے مولانا ابوالکلام آزاد کی قیادت میں "الہلال" اور 1924 کو سردار دیوان سنگھ کی طرف سے ہفت روزہ "ریاست" وغیرہ اردو صحافت کی ایسی چند مثالیں ہیں جنہوں نے مختصر مدت مگر دم دار کوشش سے انگریزوں کی نیند حرام کررکھی تھی ۔ انہی اخبار اور روزناموں کی وجہ سے انکے ایڈیٹروں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں ، بعض کو تو تختہ دار پر بھی چڑھنا پڑا مگر حوصلہ تھا کہ "تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا"۔ 

آزادئ ہند میں اردو شعراء کے باحوصلہ اشعار کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔ انہی اشعار کی بدولت کئی مایوس جوانوں میں از سر نوجذبہ ابھرا ، اور اس وطن عزیز کے لیے سر کٹاکرآزادی حاصل کرنے کے جوش پیدا ہوا:  

حسرت موہانی(1875-1951) کو جب قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور ان کے ہاتھوں چکی پسائی گئی تو آپ نے کہاتھا:  

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

بھگت سنگھ کو جب قید کیا گیا تو ان کی زبان پر بسمل عظیم آبادی کا یہ شعر سانسوں کی طرح چلتا رہا:  

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

علامہ اقبال(1877-1938) کے ان اشعار کو کون نہیں پہچانتا:  

وطن کی فکر کر ناداں ، قیامت آنے والی ہے 

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

شاعر انقلاب مجازلکھنوی(1911-1955) کو تو دیکھو کہ کیسے پانی میں آگ لگاتے ہیں:  

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر

جو ہوسکے تو خود انقلاب پیدا کر

ان خدمات کو فراموش کرنے والوں پر طمانچہ کستے ہوئے ماضی قریب کے بے باک شاعر راحت اندوری(1950-2020) کے اس شعر کے کیا کہنے:  

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں 

کسی کے باپ کا ہندوستاں تھوڑی ہے






ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی