کاش کہ ہر دن یومِ آزادی ہوتا!

کاش کہ ہر دن یومِ آزادی ہوتا! کاش کہ ہر دن ہم  “ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی- آپس میں سب بھائی بھائی” کا نعرا لگاتے پھرتے۔ مگر ایسا ہوتا تو شاید یہ نعرا اپنی وقعت کھودیتا، یہ جذبہ مدھم پڑجاتا۔  

واقعی آفتابِ یومِ آزادی بلکہ آدھی رات ہی سے ہر ہندوستانی کا اسٹیٹس کیسری کیسری، سفید سفید، ہرا ہرا، نیلا نیلا بن جاتا ہے۔ جھنڈوں کو سلامی دی جاتی ہے۔ دن بھر آبا واجداد کے کارنامہ یاد کیے جاتے ہیں۔ حب الوطنی کی لہر دوڑنے لگتی ہے۔ رات ہوتے ہوتے اسٹیٹس کا وقت بھی تمام ہونے لگتا ہے اسی کے ساتھ ہمارا جوش وجذبہ بھی ماند پڑ جاتا ہے۔  

ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اخباروں کے خصوصی صفحات پر، مختلف مسلم اسٹیجوں پر ایک موضوع اپنے آب وتاب کے ساتھ شعلہ برسانے لگتا ہے:”ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار” اور ایک جملہ ٹرینڈ کر جاتا ہے: “ہمارے آبا واجداد کی قربانیوں کو بھلایا جا رہا ہے۔ ہماری تاریخ مٹائی جارہی ہے”۔  

معیار آپ سے سوال کرتا ہے کہ آخر ہم کیونکر  آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ فلاں کوئی شخص میرے مرحوم والد کی تعریف میں قصیدہ گائے گا، ان کے کارِ خیر، انکے جذبۂ ایثار کے بدلے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے مجھ کو اپنی پلکوں پر بٹھائے گا!؟ ایسا ہوتا نہیں ہے۔۔۔ہوسکتا نہیں۔۔۔ بلکہ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اگر ایسا ہو تو وہ قدردانی نہیں بلکہ کھلا فریب ہے۔ 

بقول انشاء “سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند​“ یہاں اسی کی قدر ہونی چاہیے جس نے کچھ کیا ہو۔ آخر کب تک کسی کے پھینکے ٹکڑے کھا کر بھوک مٹائی جاتی رہے گی۔ آخر کب تک یہ ثبوت دیا جاتا رہے گا کہ ہاں سنو سنو سنو ہم نے بھی کچھ کیا ہے۔ ہمارے بھی برابر کا حصہ رہا ہے۔ کب تک یہ رونا روتے رہوگے ۔ 

گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی

 سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی

پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن،

 یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں 

جنہوں نے قربانی دی انہوں نے اپنا حق ادا کردیا مگر سوال یہ ہے کہ تم نے کیا کیا 

تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو! 

کیا تمہیں “ہم بھی” کہتے وقت اس “بھی” میں ایسا نہیں لگتا کہ ہم ثبوت دیکر کم از کم دوسرے درجہ کے شہری ہونے کی بھیک مانگ رہے ہیں؟ کیا کبھی ایسی سوچ نہیں ابھرتی کہ جس کو میں اپنا وطنِ عزیز کہہ رہا ہوں اس کی ترقی، اس وطن کی سینچائی میں میں نے کیا کیا؟ 

کیوں نہ کوشش اتنی خاموشی سے کی جائے کہ کامیابی شور مچادے۔ ہر ابھرتے سوال کا جواب بن جائے۔ پھر یہ نہ کہنا پڑے ہم بھی۔ خود برادرانِ وطنوں کی زبانیں گن گانے لگ جائے۔ کوشش کی 

جائے اپنا مقام پیدا کیا جائے۔  

متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن

منتشر ہو تو مرو چلاتے کیوں ہو


 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی